Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

اسلام میں خواتین کی حقوق

اسلام نے خواتین کو حق دیا ہے

 کہ وہ خاوند کا انتخاب کریں جو اس کو پسند ہو۔

الدكتور: عبدالرحمن حماد الأزهرى

ترجمة الدكتور:أحمد شبل الأزهرى 

اسلام نے مرد اور عورت دونوں کو اختیار کے مسئلہ میں اختیار کا راستہ دیا ہے، یعنی مرد اور عورت دونوں میں مساوات کی ہے، اور اسلام نے والدین کو یہ حق نہیں دیا ہے کہ وہ مرد یا عورت کو نکاح پر مجبور کریں۔ اس مسئلے میں والدین کو اتنا اختیار حاصل ہے کہ وہ نصیحت کریں اور وہ اپنی اولاد کو گاںٔڈ کر سکتے ہیں کیونکہ شادی مرد کی خصوصیات میں سے ہے اور اگر والدین اپنی بیٹی کو نکاح پر مجبور کریں یا اس پر زبردستی کریں اس شخص کے ساتھ جس کے ساتھ وہ نکاح کرنا نہیں چاہتی تو یہ اس پر ظلم ہے اور بیٹی کے حقوق پر تجاوز ہے ۔اسلام میں عورت کے لیے حوریت اور مکمل آزادی ہے کہ جو اس کے خطبہ کے لیے آتے ہیں یا نکاح کے لیے آتے ہیں کہ وہ اس کو قبول یا رد کریں اس کو مکمل آزادی ہے اور والد یا ولی کو کوئی حق نہیں کہ وہ اس کو مجبور کرے اس شخص کے ساتھ نکاح پر جس کو وہ پسند نہیں کرتی اور اس میں سبب یہ ہے کہ ازدواجی زندگی ( اکراہ ) زبردستی پر مبنی نہیں ہے اس لیے بہت ساری احادیث میں یہ ہی بات آئی ہے  کہ اس مسئلہ میں خواتین کو حق دینا چاہیے مثلاً صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ جو مطلقہ خاتون یا جس کا شوہر مر گیا ہے اس کا نکاح اس کے اجازت کے بغیر نہیں کرا سکتے اور اسی طرح کنواری لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہیں کر سکتے تو صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا کہ اس کا اذن (اجازت) سے کیا مراد ہے؟

 تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کہ وہ چھپ ہو جائے۔

ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور شکایت کی کہ میرے والد نے  مجھے نکاح کرنے پر مجبور  کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو اجازت دے دی کہ اگر وہ اپنے خاوند کے ساتھ رہنا چاہتی ہے تو صحیح ہے ورنہ اسے  اختیار ہے کہ وہ علیحدہ ہو جائے  اور اسی طرح اسلام نے جس طرح عورت کو ابتداءِ نکاح میں اختیار دیا ہے اس طرح اگر نکاح ہو بھی جائے تب بھی اسلام نے اختیار دیا ہے کہا اگر میاں بیوی کے درمیان تعلقات خراب ہوں وہ باقی رہے یا فراق و جدائی  اختیار کرے ۔ اور فراق طلاق  یا خلع کی صورت میں ہو سکتا ہے یعنی کوئی ضرر ہو تو بیوی طلاق کا مطالبہ کر سکتی ہے یا خلع لے سکتی۔ یہ سارا اسلام کا اھتمام ہے اور اسلام نے عورت کا خاص خیال رکھا ہے تو کسی کے لئے جاںٔز نہیں کہ وہ کسی عورت کو شادی پر مجبور کرے اگر کسی والد وغیرہ نے اسکو مجبور کر دیا تو وہ بعد میں نکاح کو فسخ کر سکتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی شخص اپنی بیٹی کا نکاح کرواںٔے اس حال میں کہ وہ اس کو ناپسند کرتی ہو تو اسکا نکاح مردود ہے اور اسی طرح مھاجر ابن عکرمہ نے یہ روایت نکل کی ہے کہ ایک شخص نے اپنی کنواری بیٹی کا نکاح کیا تو وہ اسکو ناپسند کر رہی تھی  تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو رد کر دیا۔

 اس عزت کے بعد کوئی عزت نہیں ہوسکتی جو اسلام نے عورت کو دی ہے اور سب سے بڑی عزت یہ ہے کہ عورت کو حق دیا ہے کہ وہ خلع لے سکتی ہے شادی کے بعد اگر وہ اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی

ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ کی روایت ہے کہ ثابت ابنِ قیس کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی کہ ثابت ابنِ قیس سچے انسان ہیں بد اخلاق اور بے دین نہیں ہیں لیکن میں اسلام میں کفر اختیار نہیں کرنا چاہتی

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (عورت) سے کہا کیا تم باغ اسے واپس کرنا چاہتی ہو ؟ اس نے کہا جی ہاں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت ابنِ قیس سے کہا کہ باغ کو قبول کرو اور اس (اپنی بیوی) کو طلاق دو

ایک اور روایت میں ہے کہ اور اسے (ثابت ابنِ قیس) کو طلاق (دینے)کا حکم دیا۔

Spread the love
Show CommentsClose Comments

Leave a comment