243Views

شیخ محمد النشرتی
شیخ محمد النشرتی أزھر کے تیسرے شیخ
اعداد: ڈاکٹر عبد الرحمن أزھری
ترجمة د. أحمد شبل الازهرى
شیخ محمد نشرتی کی ولادت ”نشرت“ شہر میں ہوئی اور حال میں یہ قلین مرکز کے ماتحت ہے
جسے ان کے دور میں ”مدیریة الفؤادیة“ کہا جاتا تھا۔
شیخ نشرتی نے اپنے گاؤں میں قرآن حفظ کیا اور أزھر یونیورسٹی سے اعلی شیوخ سے تعلیم حاصل کرنے کے لیۓ قاھرة منتقل ہو گئے جہاں آپ نے مختلف شرعی علوم پڑھے جن میں توحید، فقہ، اصول فقہ، حدیث، تفسیر، تصوف، علم کلام، نحو وصرف، عروض، معانی و بیان، بدیع، ادب، تاریخ، سیرت نبوی، منطقی علوم، وضع و میقات شامل ہیں جو آپ نے کبار علماء کرام سے حاصل کیۓ۔
شیخ نشرتی نے علم کے حصول میں بہت اجتہاد کیا یہاں تک کہ اپنے ساتھیوں پہ سبقت لے گئے
اور ان کا مرتبہ بہت بلند ہوا۔
تدریس کے میدان میں آپ کا مقام بڑا عظیم تھا مختلف مذاھب فقھیة کے طالب علم
سب اسلامی ممالک سے وفود کی صورت میں آپ کی مجلس میں آنے لگے اور شیخ نشرتی حلقات درس صادر کرتے رہے یہاں تک کہ آپ شیخ برماوی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد 1106ھ| 1695م میں جامعة أزھر میں مشائخ کے طور پہ منتخب ہو گئے۔
شیخ نشرتی کے فاضل تلامذہ کی تعداد بہت ہے شیخ عبد الباقی القلینی، شیخ أبو عباس أحمد بن عمر الدیربي الشافعی الأزھری، شیخ عبد الحي زین العابدین، شیخ أحمد بن الحسن کریمي الخالدي الشافعی جو جوھری کے نام سے مشہور ہیں یہ سب شیخ نشرتی کے تلامذہ میں سے ہیں۔
اتوار کے دن ظہر کے بعد ٢٨ ذو الحجة 1120ھ _1709م کو آپ اپنے رب کی جوار میں منتقل ہو گئے۔
أزھر میں آپ کی نماز جنازہ ادا کی گئی، آپ کے جنازہ میں وزراء،امراء عام و خاص لوگ شریک ہوۓ اور اس دن کثیر تعداد میں اور بڑی جماعت کے لوگ حاضر ہوۓ۔
یہ ان کے مرتبے پر دلالت کرتاہے
شیخ نشرتی صلاح، زھد، بہترین سیرت اور علماء اور طلبہ کے درمیان علمی شھرت کی وجہ سے بلند مقام کے طور پہ مشھور ہوۓ۔