اسلام ایک اعتدال پسند مذہب ، اعتدال پسندی اور انتہا پسندی میں فرق اللہ کی دعوت سائنس اور فن ہے مشہور نئی پوسٹ 28/05/2020
166Views
دین اسلام نے انسان کو جس منزلت سے نوازا قرآن کریم نے اس پر مخالفین کے ساتھ دین اور عقیدے کی حقیقی روح سے دینی رواداری کی تاکید کی مہر ثبت کی ہے، ان کے ساتھ رواداری کا سلیقہ یوں اپنایا جائے کہ دینی شعائر کو کماحقہ حق ادا ہوجائے، بایں ہمہ ان پر دین میں داخلےکی زبردستی کا طریقہ نہ اپنایا جائے؛اسے کسی بھی قسم کے خوف اور تمسخرسے بالاتر ہوکر اختیار دین میں آزادی دی جائے، اس کے ساتھ ساتھ اسے سوچ اور فکر کاوقت بھی ملنا چاہئے تاکہ وہ دین میں تدبر کے ذریعے ہدایت اور استقامت کے راستے کو اپنائے۔
صحیح اسلامی عقیدے کو فروغ دینے کے لئے ، اور اس راستے کو مضبوطی سے اختیار کے لئے دوسروں سے تعصب کی کوئی گنجائیش نہیں، نہ ہی ان کے حقوق سلب کرنے کی، نہ ہی ان کے لئے اندرونی بغض اور عناد کی، کیوں کہ اسلام دوسروں کے ساتھ رواداری پر زور دیتاہے، اس کی اعلیٰ مثال اسلامی رواداری کے بارے میں سورۃ الکافرون کی آخری آیت کریمہ: (تمہارے لئے تمہارا دین میرے لئے میرادین) کہ ہر کسی کا وہ دین ہے جس سے اس کا نفس پسند کرتا ہے اور اسے اپناتاہے، اس کے بارے میں اللہ کے سامنے سوال ہوگا، دنیا اور آخرت میں اس کی جوابدہی کا سامنہ کرنا پڑنا ہے، اسلامی بقا کے لئے قربت اور ملنساری، دوسرے ادیان کے پیرو کاروں کے ساتھ تعلقات اور مخالف جماعتوں کے ساتھ جو آراء میں اختلاف رکھتے ہیں ان کے ساتھ رواداری کی روح کو بیدار کرنا بہتر رہے گا۔اسلام میں رواداری کا مظہر عدل اور احسان اور مہربان پن اور اعتدال اور تعصب اور شدت سے کناری کشی ہے، کیوں کہ اسلام دین رحمت ، شفقت ، ہمدردی ، ہم آہنگی ، یکجہتی ، یکجہتی اور پرامن بقائے باہمی ہے یہاں تک کہ غیر مسلموں کے ساتھ۔
نبی کریم ﷺروادارانہ مزاح کے مالک تھے یہاں تک کہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی، کئی بار انہیں چھوٹ دے دی، اور ان کی تکالیف اور درد کو برداشت کیا اور ان پر صبر کیا، یہاں تک کہ اپنے لئے کبھی ان سے انتقام نہیں لیا سواء کہ جب انہوں نے اللہ کی حرامات کو کچلا تب گناہ گار بنے اور لوگوں سے دوری کا سبب بنے ۔
اسلام عقیدے کی آزادی کا احترام کرتا ہے ، اور اس بات کی مخالفت کرتا ہے کہ جبری دین میں داخل کیا جائے، مومنین کو کسی کو جبراً دین میں داخل کرنے سے منع کیا ہے، ارشاد ربانی ہے کہ: (دین میں کوئی زبردستی نہیں، بیشک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے،) (البقرۃ: 256)، اور ارشاد باری ہے: (اور اگر آپ کا رب چاہتا تو ضرور سب کے سب لوگ جو زمین میں آباد ہیں ایمان لے آتے، (جب رب نے انہیں جبراً مومن نہیں بنایا) تو کیا آپ لوگوں پر جبر کریں گے یہاں تک کہ وہ مومن ہوجائیں) (سورۃ یونس : 99)۔
ادیان میں اختلاف اللہ پاک کی مشیئت اور قدر سے ہے؛ جس کی قرآن کریم نے تاکید کی اور اس بات پر زور دیا کہ دلوں کو ہدایت یافتہ کرنا رسولوں کے ذمہ نہیں، یہ اللہ رب العزت کے ذمہ ہے کہ جس دل کو چاہے ہدایت عطافرمائےجب چاہے اس کے لئے ہدایت کے اسباب پیدا کرے، ہدایت دو قسموں پر مبنی ہے:
قرآن کریم نے واضح کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ میں ایسی چیز رکھی ہی نہیں گئی کہ وہ کسی کو ہدایت کے راستے میں حائل ہوں، اللہ تبارک وتعالیٰ چند آیا ت میں اپنے نبی ﷺ کو مخاطب بھی کرتے ہیں فرمان ہے: (آپ ان پر جابر و قاہر (کے طور پر) مسلط نہیں ہیں) (الغاشیۃ : 22)