Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

اس دعویٰ کا رد کہ اسلام نے میراث کے مسئلے میں عورت پر ظلم کیا ہے

ڈاکٹر عبدالرحمن حماد الازہری

ترجمة ڈاکٹر: احمد شبل

بعض لوگوں کا زعم ہے کہ اسلام نے میراث کے مسئلے میں عورت پر ظلم کیا ہے کیونکہ میراث کا حصہ مرد کے مقابلے میں عورت کے لیے نصف ہے۔ یہ دعوی یا تو جہالت کی وجہ سے ہے یا جان بوجھ کر کیونکہ عورت کو نصف میراث بہت کم حالات میں ملتی ہے بہت سے حالات میں عورت میراث مرد سے زیادہ لیتی ہے بلکہ بعض اوقات میں مرد کو میراث نہیں ملتی جب کہ عورت کو زیادہ ملتی ہے۔ یہ لوگ محض ان آیات کو پڑھ کر حکم لگاتے ہیں «مرد کے لیے دو عورتوں کے برابر حصہ ہے»۔ یہ لوگ شریعت اسلامیہ میں تیر اندازی کرتے ہیں کہ عورت کے ساتھ ظلم ہوا ہےاور ان کا یہ قول شریعت ربانیہ کا مقصود نہیں ہے۔اور یہ اللہ کے عدل کے خلاف بھی ہے اوریہ  شریعت اسلامیہ کا امتیاز ہے کہ وہ میراث کے مسائل کو انتہائی اچھے طریقے اور تفصیل کے ساتھ بیان کرتی ہے یعنی، میراث کی تنظیم اور نسب کا اثبات اور اسلام نے درجہ قرابت کے لحاظ سے حصے مقرر کیے ہیں۔ مثلا  میت کے قریبی کو میراث کا حصہ دیا گیا ہے مثلا: ماں کی طرف سے بھائی، اور باپ کی طرف سے بھائی۔ (قرب کے لحاظ سے),  بھائی اور عامہ، اسی طرح اسلام نے ولد الزنا اور  اور یتیم کو کبھی اس معاملے میں نظر انداز نہیں کیا ہے۔ اور اس بات کی بھی ترغیب دلائی ہے کہ اپنی خوشی سے بھی صدقہ کیا جائے اور اگر قاری حضرات مطالعہ کریں تو وہ جان جائیں گے کہ اسلام نے عورت کو کس طرح تقویت دی ہے کیونکہ وہ حیلہ میں کمزور ہے اس کی طبیعت میں ضعف موجود ہے تو اس کو یہ واضح ہو جائے گا کہ اسلام نے عورت کو اصحاب فرائض میں بنایا ہے اور ایک ہی حالت میں عورت اپنے بھائی کی نسبت نصف حصہ میراث میں پاتی ہےاور غور کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عورت کے لیے مرد کے نسبت نصف حصہ ہے یہ بات ہر حالت کے لئے نہیں ہے۔ بعض بعض حالات ایسے ہیں جس میں عورت بالکل مرد جیسا حصہ لیتی ہے۔ مثلا ایک عورت وفات پا جانے کے بعد خاوند پڑتی ہے جس کو آدھا حصہ ملتا ہے اور ماں چھوڑتی ہے جسے تیسرا حصہ ملتا ہے۔ اور ایک بھائی یا بہن چھوڑتی ہے تو اسے چھٹا حصہ ملتا ہے۔ اور اگر وہ زیادہ ہوں تو ایک تہائی میں شریک ہوتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ ابو، دادا وغیرہ موجود نہ ہو۔

اسی طرح ، دوسرے حالات جس میں عورت اور مرد ایک جیسا حصہ پاتے ہیں وہ یہ ہے کہ ایک مرد وفات پانے کے بعد ، بہن چھوڑتا ہے ، حقیقی بہن بھی اور والد کی طرف سے بہن بھی، جو اپنی بہن ہے وہ آدھا حصہ لیتی ہے اور جو والد کی طرف سے بھائی ہے وہ بھی آدھا حصہ لیتا ہے۔

دوسرا  یہ کہ دس حالات سے زیادہ حالات میں عورت مرد سے زیادہ حصہ لیتی ہے ۔

ایسے حالات بھی موجود ہے جب عورت کو میراث میں حصہ ملتا ہے جب کہ مرد محروم رہتا ہے۔ مثلا: ایک عورت مر جاتی ہے تو خاوند کو آدھا حصہ ملتا ہے اور ماں کو چھٹا حصہ ملتا ہے ، دو بہنوں کو ثلث ملتا ہے ، ابو کی طرف سے بھائی کو کچھ نہیں ملتا ہے۔ایک شخص مر جاتا ہے اور بیٹی چھوڑتا ہے ، بیٹی آدھا حصہ لیتی ہے اور باقی مال مردوں پر تقسیم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا یہاں بیٹی کو زیادہ حصہ ملا ہے۔ میراث کے اکثر احکامات کو شریعت اسلامی نے ایک ترتیب دی ہے اور یہ ترتیب تین لحاظ سے دی ہے۔

اول : قرابت کا درجہ, جو زیادہ قریب ہے وہ زیادہ حصہ لیتا ہے۔

ثانی: اللہ نے وقت اور نسل کے لحاظ سے ترتیب دی ہے جیسا کہ جو لوگ مستقبل میں آئیں گے اُن کا حصہ پہلے لوگوں سی زیادہ ہے جیسا کہ بیٹی ماں سے زیادہ حصہ لیتی ہے ۔

ثالث: بعض وارثوں پر بوجھ ہوتا ہے، بھائی کو اُس کی زمہ داری کے سبب زیادہ حصہ ملتا ہے، اور عورت کسی پر خرچ کی مکلف نہیں ہے اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے اور یہ شریعت میں بہت عظیم چیز ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت نے میراث کے معاملے میں عورت اور مرد میں کوئی امتیاز نہیں کیا ہے۔

Spread the love
Show CommentsClose Comments

Leave a comment