252Views

مشہور محدثین میں سے ابن دقیق العید المصری الازہری
ڈاکٹر محمد عبد الظاہر محمد ازھری شعبہ حدیث شریف
آپ محمد بن علی بن وہب بن تقي الدین ابن دقیق العید، المنفلوطی المصری الازہری، آپ ایک عظیم بزرگ اور امام اور عالم دین، محدث، فقیہ اور مصر کے قاضی تھے، آپ ۶۲۵ ھ میں شعبان کے مہینے میں دریائے نیل کے کنارے واقع صعید مصر کے مرکز منفلوط میں پیدا ہوئے اور وہیں پلے بڑھے۔ آپ حافظ قرآن تھے اور مذہب امام مالک کو اپنے والد گرامی سے پڑھا، آپ کے والد کا شمار صعید مصر کےمشہور علماء میں ہوتا تھا، آپ سے سامنے بہت سے طلبہ نے زانوئے تلمذ تہہ کیا، خاص کر نحو اور علوم لغت پڑھاتے تھے، آپ متقی پرہیز گار اور پارسا شخصیت کے مالک تھے۔
ابن دقیق ازہر شریف کے دامن میں
پھر آپ نے قاہرہ کا سفر کیا جو اس وقت علمی اور فکری اور ثقافتی لحاظ سے مرکز تھا۔ اور ابن دقیق نے اس کی عظیم علمی بیداری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس کا اس وقت کا قاہرہ بھی گواہ ہے، اور علماء ازہر سے علمی استفادہ کیا اور مختلف علوم وفنون میں کمال حاصل کیا خاص کر حدیث اور اس کے علوم میں، فقہ واصول فقہ میں، لغت ادب اور فنون میں، اور عظیم عالم شیخ عز الدین بن عبد السلام سے ان کی وفات تک جڑے رہے، اور ان سے اصول اور فقہ شافعی سیکھی، اور کئی علوم ومعارف میں اعلیٰ مہارت حاصل کی۔
ابن دقیق اور اس کا فقہی مذہب
امام ابن دقیق نے امام مالک اور امام شافعی کو جمع کیا، اور اسے اس قابل بنایا کہ دونوں کی اقتدا کی جائے اور دوسرے کو اختیار کرتے ہوئے، تعصب اور خواہشات نفسانی سے دور رہتے ہوئے علمی بات کرتے تھے، اور فہم اور بصیرت پر مبنی فتوی دیتے تھے، اور جنگ وجدل سے ہمیشہ دور رہتے تھے، لوگوں کو آپس میں ملاتے تھے اور تعمیری سوچ کے مالک تھے۔
ان کے بارے میں امام ذہبی فرماتے ہیں: آپ فنون کے مالک اور نہایت باریک بین اصولی، ادب اور نحو کی پہچان رکھنے والے ذہین اور معانی پر عبور رکھنے والے دانا اور مطمئن اور متقی اور سنتوں پر عمل پیرا رہنے والے تھے، مطالعہ پسند اور مجمع پسند تھے، انتہائی ذہیں اور بات میں شائستہ تھے، اور فروعی اور اصولی علوم میں مہارت رکھتے تھے اور عقلی اور نقلی علوم پر دسترس رکھتے تھے، اور بے پایاں شہرت حاصل کی یہاں تک ائمہ اور مشائخ اپنی مجلسوں میں ان کا ذکر خیر فرمایا کرتے تھے۔
منصب قضاء اور امراء اور حکام کے پاس مقام
آپ ۱۸ جمادی الاول ہفتہ کے دن ۶۹۵ ھ کو مصر کے قاضی کے منصب پر فائز ہوئے، ابن حجر فرماتے ہیں کہ آپ اس منصب پر صفر ۷۰۲ ھ اپنی وفات تک فائز رہے (آپ رحمۃ اللہ علیہ قضاء کے منصب پر عدل میں اپنی مثال آپ تھے، حق بات کرنے میں کسی کی ٹوک سے نہیں ڈرتے تھے، جس بات کو حق سمجھتے تھے اسی کا فیصلہ فرماتے، سلطان منصور اپنے عرش سے اتر کر آپ کی دست بوسی کیا کرتا تھا)۔
وفات اور مصری آرمی کا آپ کے لئے اعزاز
آپ کی وفات قاہرہ میں جمعہ کے دن ۷۰۲ ھ میں ہوئی، آپ ۷۷ کی عمر میں دنیا کو اپنے علمی، ادبی، فہم وفراست اور حب الوطنی جیسے بیش بہا تحائف دے کرے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔آپ کی کئی عمدہ تصنیفات ہیں مختلف علوم میں جیسے حدیث، فقہ، اور وغیرہ میں. آپ کو ہفتہ کے دن قاہرہ کے مشرق میں واقع جبل مقطم کے پاس دفنایا گیا، اور آپ کا جنازہ سوق الخیل قاہرہ میں ادا کیا گیا، آپ کے جنازے میں نائب سلطان اور امراء اور علماء سمیت عوام کے جم غفیر نے شرکت کی اور نبی کریم ﷺ کے اس قول کے مصداق ٹھہرے کہ وہ محلوق میں سے بہترین ہیں، ان کے اعزاز واکرام میں آپ کی نماز کا انتظار کیا گیا۔